میں جس دن پیدا ہوا
اسی دن سے مر رہا ہوں
وہ طبلے پر پیالے میں
تلخ محلول رکھا تھا
اب نہیں ہے
وہ اک دریا بہتا تھا
اسے خشک کر دیا گیا ہے
وہ چھت سے رسی ٹنگی تھی
ہٹا دی گئی ہے
میں تمام عمر اپنوں کے نرغے میں رہا ہوں
مجھے میرا پیالہ
میرا دریا
میری رسی
تھوڑی دیر کے لیے
واپس کیے جائیں
میں اس پیالے کو توڑ کر
اس کی مٹی سے
ایک دل بناؤں گا
جس میں کوئی تلخ یاد نہیں ہوگی
میں دریا میں اپنے خواب ڈال دوں گا
انہیں میری ضرورت نہیں
میں رسی سے
اس کشتی کو باندھوں گا
جس میں ایک عورت
پھولوں کی ٹوکری لیے
بیٹھی ہے
جو میرے مرنے کا تماشا نہیں دیکھنا چاہتی
نظم
جو میرے مرنے کا تماشا نہیں دیکھنا چاہتی
احمد آزاد