میں نے زمیں کی تپتی رگوں پہ ہاتھ دھرے ہیں
میں نے زمیں کی تپتی رگوں سے
تپتے لہو کو ابلتے دیکھا ہے
ان رستوں پہ ان گلیوں پہ
پتھر جیسی سخت ہوا کے
سرخ دھماکے دیکھے ہیں
رات کی متورم گھڑیوں میں
زرد مکانوں کے صحنوں میں
لہو کو گرتے دیکھا ہے
قطرہ قطرہ قطرہ
قطرہ قطرہ بنتے بنتے ایک سمندر
اک بے پایاں تپتا سرخ سمندر
زرد مکانوں کی رگ رگ میں
تپتا سرخ سمندر
ان گلیوں کی بوڑھی چھال پہ عفریتوں کے حملے
تپتی زمیں کے ساتویں تلوے تک لہراتی اندھی چیخیں
کتنی ہی ظالم صدیوں سے
اندھی چیخیں میرے تپتے جسم کے جلتے خلیوں
زرد مساموں کے دروں میں بھٹک رہی ہیں
چیخیں میرے جسم کی اک اک رگ میں یورش کرتی ہیں
نفرت کا تیکھا لشکارہ جسم کو کاٹتا رہتا ہے
جس کے اندر جسم کے باہر
خون کا اندھا لاوا بہتا رہتا ہے
نظم
جسم کے اندر جسم کے باہر
تبسم کاشمیری