کیا خبر صبح کے ستارے کو
ہے اسے فرصت نظر کتنی
پھیلتی خوشبوؤں کو کیا معلوم
ہے انہیں مہلت سفر کتنی
برق بے تاب کو خبر نہ ہوئی
کہ ہے عمر دم شرر کتنی
کبھی سوچا نہ پینے والے نے
جام میں مے تو ہے مگر کتنی
دیکھ سکتی نہیں مآل بہار
گرچہ نرگس ہے دیدہ ور کتنی
جانے کیا زندگی کی جاگتی آنکھ
ہو گئی اس کی شب بسر کتنی
شمع خود سوز کو پتہ نہ چلا
دور ہے منزل سحر کتنی
مسکراتی کلی کو اس سے غرض
کہ ہے عمر اس کی مختصر کتنی
جینے والوں کو کام جینے سے
زندگی کا نظام جینے سے
نظم
جینے والے
مجید امجد