ہمیں جوانی میں موت آئے گی
بھیگتے تکیے کے سرد سینے پہ
اپنی سانسوں میں گرم بانہوں کی پیاس لے کر سلگنے والی
ہر ایک دوشیزہ جانتی ہے
کہ آنکھ جب خواب کے صحیفے کو چاٹ لے گی
تو نوح کیپسول سے پکارے گا
پیارے بیٹے، اماں میں آؤ
لو، میں نے جو قبر عمر کے بیلچے سے اپنے لئے بنائی ہے
اس کی رانوں میں
تم بھی اپنا بدن سمیٹو
تمہارے ایک ہاتھ چاند اور دوسرے پہ سورج
کہ مصلحت کی کریز قائم رہے
گلیمر تمہارے کالر میں پھول بن کر کھلے
اے بیٹے، یہ شہر عریانیوں میں نچڑے گا
اور اس پر عذاب دائم ہے
نظم
جواں مرگ کا نوحہ
راحت نسیم ملک