اس ہوس میں کہ پکارے جرس گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہل جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگی ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رماز رموز غم پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطر دوست
ہم بھی شوق رہ دل دار کے زندانی ہیں
جب بھی ابروئے در یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں
بند ہوگا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
نظم
جرس گل کی صدا
فیض احمد فیض