EN हिंदी
جنگل | شیح شیری
jangal

نظم

جنگل

وزیر آغا

;

کیڑے پیڑوں کے جنگل میں
پتوں کی کالی دیواریں

دیواروں میں لاکھوں روزن
روزن آنکھیں ہیں جنگل کی

وحشی آنکھیں ہیں جنگل کی
تو راہی انجان مسافر

جنگل کا آغاز نہ آخر
سب رستے ناپید ہیں اس کے

سب راہیں مسدود سراسر
تو راہی جگنو سا پیکر

ہار چکا جنگل سے لڑ کر
اب آنسو کا دیا جلائے

تو گم کردہ راہ مسافر
ایسی پاگل نظروں سے کیوں

اوج فلک کی پیشانی پر
جھلمل کرتے اس جھومر کو

گھور رہا ہے