EN हिंदी
جنگل: ایک ہشت پہلو تصویر | شیح شیری
jangal: ek hasht pahlu taswir

نظم

جنگل: ایک ہشت پہلو تصویر

عمیق حنفی

;

شہر کے آرے چلاتے بے سرے بد رنگ شور و غل سے دور
پاک رنگوں کا صنم آباد

پاک آوازوں کا اک گندھرو لوک
شہر والوں میں ہے جنگل جس کا نام

صبح جس کی ایک ارژنگ اور البم جس کی شام
وہ لچکتی فصل کے پہلو میں کہنی مار کر کلکاریاں بھرتی ہوئی

جھنجھنا اٹھتے ہیں موٹے چمچماتے تار
ٹیپ پر جاتی ہے بل کھاتی ہوئی آواز

چھڑ گئی ہو دور جیسے جل ترنگ
دوڑتی ہے سنسنی ایسی امنگ

جیسے پانی میں ہزاروں مچھلیاں اک ساتھ کودیں اور چادر چیر جائیں
جیسے پکے کام والی ساڑیاں لہرائیں سرسرائیں

گنگنائیں جیسے ہنسوں کے ہجوم
گنگنائیں سرمدی نغمے نجوم

وہ سنہری چولیوں میں کس مساتے، گول، ابھرے، سانولے ٹیلے
گول، ابھرے، سانولے ٹیلے سنہری، تنگ، روشن چولیاں

کس مساتے، گول، ابھرے سانولے گدرائے بھاری سخت ٹیلے
وہ سنہرے پن کو یاںواں پھاڑ کر خود پھٹ پڑا ہے شیام رنگ

بار سے ہے چاک چولی جھانکتا ہے سانولی دھرتی کا انگ
(یاد آتا ہے یہاں تشبیہ کا سمراٹ کالی داس)

وہ کھجوروں کے درختوں کی قطار اندر قطار
ایک دم سیدھی کھڑی سمبندہ ریکھائیں زمین و آسماں کے درمیان

آسمانی شامیانہ ان ستونوں کے سروں کو چھوڑ کر
بے ستوں گنبد سا خود لٹکا ہوا

آم کی ڈالوں پہ چکنے سبز پتے
سبز پتوں پر لٹکتی کیریاں

سبز ننھی کیریاں
رنگ رس اور سواد کے خوابوں کی تعبیروں کے انکھوے کھل گئے

سبز پیلا سبز بھورا سبز کالا سبز زریں سبز نیلا
سبز سبز سبز سبز

سبز غالب رنگ کتنی جوڑیوں کے ساتھ پھیلا ہوا
سبز غالب رنگ باقی رنگ گویا اس کے شیڈ

راس منڈل میں کنہیا سبز باقی اس کی گوپیاں
تیز بے حد تیز بے دم ہانپتی موج ہوا کی لے

تیز بے حد تیز لیکن نغمہ ریز
جھومتا گاتا تھرکتا ناچتا ماحول

ایک لے میں رقص کرتے ہیں فضا دیہات جنگل کھیت
رقص میں ہے موج رنگ

موج میں آواز
اور پھر آواز میں خوشبو کا رقص

سب کے سب ہیں ایک لے کے دائرے میں ہم نوا ہم رقص باہم ایک
دور تک پھیلاؤ آزادی محبت اور چنچل شانتی

ایک جیتی جاگتی تابندہ زندہ شانتی
پھولنے پھلنے سنورنے کر گزرنے کا کھلا امکان

شہر والوں میں ہے جنگل اس کا نام