EN हिंदी
جنگل | شیح شیری
jangal

نظم

جنگل

عنبرین صلاح الدین

;

ایک عجیب سا جنگل ہے اس شہر کے بیچ اگ آیا
گھنا مہیب اور گہرا جس کی خوب گھنیری چھایا

یوں لگتا ہے جیسے میرے بھیتر کا اک سایا
اک دن پہلے کہیں نہیں تھا ایسا سبز اندھیرا

اونچی شاخوں کی پرتوں کا گنبد جیسا گھیرا
دیکھوں پھر حیران رہوں اس شہر میں ایسا ڈیرا

کانٹوں والے زہر بھرے بل کھاتے شاخچے آگے
پیچھے ہٹتے جائیں رستے جنگل جیسے بھاگے

جس بھی رخ پر پاؤں دھروں اس دل میں ڈر سا جاگے
میرے پیر کے نیچے سے اک شاخ نئی اگ آئے

تم تک جاتا ہر اک رستہ ایسے رکتا جائے
کیوں کر مجھ کو ملنے دیں پھر خوف کے بوجھل سائے