بہو کہے یہ بڑھیا میری جان کی لاگو بن کے رہے گی
ساس کہے گز بھر کی زباں ہے اپنی منہ آئی ہی کہے گی
بہو کہے جب دیکھو جب ہی خواہی نخواہی بات بڑھانا
ساس پکارے اے مرے اللہ توبہ بھلی اب تو ہی بچانا
بہو کہے اپنا گھر کیسا یاں تو اپنے بھی ہیں پرائے
ساس کہے جل بھن کے اسے تو راج محل بھی راس نہ آئے
بہو کہے جس کے ہاتھوں ہے ڈوئی اسی کا سب کوئی ہے
ساس پکارے جاؤ جی جاؤ پاؤں کی جوتی سر پہ چڑھی ہے
بہو کہے مجھ جنم جلی کو کس کے پلے باندھ دیا ہے
ساس کہے اب کون بتائے آگے جو آیا ہے کس کا کیا ہے
بہو کہے یہ پوت کی دردی بس جو چلے تو بس ہی کھلا دے
ساس کہے وہ بات ہے اپنی گالی سنے اور پھر بھی دعا دے
بہو کہے اب سر پہ پڑی ہے جیسے بھی ہو گزر جائے گی
ساس کہے جب دیکھو اس کو دودھ ملیدہ ہی کھائے گی
بہو کہے جی جو آتا تھا ساس کے سامنے بول رہی تھی
ساس بھی لیکن ترکی بہ ترکی بھید بہو کے کھول رہی تھی
ننھے نے یہ موقع تاڑا جھٹ باورچی خانے پہنچا
دودھ پہ آئی تھی جو ملائی چپکے سے اس کو کھانے پہنچا
کھا کے جو لوٹا راہ میں اس نے کالی بلی جاتے پائی
دیکھ کے اس کو ڈر کے مارے زور کی اس نے چیخ لگائی
ایک ہی چیخ نے اس کی پل میں ساس بہو کا جھگڑا چکایا
دوڑی بہو مرے لال ہوا کیا ساس پکاری ہائے خدایا
نظم
جنگ کا انجام
میراجی