چہرہ اس کا سرخ گلاب
ہونٹ بھرے یاقوت سے ہیں
جھیل سی گہری کالی آنکھیں
چاند جبیں پہ رہتا ہے
زلفوں میں عنبر کی خوشبو
تاج محل سا اس کا جسم
غنچوں سے بھری ڈالی کی طرح وہ
لہراتی بل کھاتی ہے
بے خوفی بے فکری میں
مست مگن سی رہتی ہے
جیسے مدھوبن کی بالا
جیسے حسینہ گاؤں کی
جیسی حسرتؔ کی محبوبہ
جیسی پیاری شاہ قطبؔ کی
جیسے غزل وہ میرؔ کی ہو
ہاں وہ بالکل ایسی ہی ہے
ہاں وہ میری معشوقہ ہے
میری ہی معشوقہ ہے وہ
نظم
جیسے مدھوبن کی بالا
ابو بکر عباد