کمرے کی خاموش فضا میں
اک مانوس سی خوشبو تھی
مہکی سانسوں کا سرگم تھا
کنچن کا یا قرب کی حدت سے نکھری تھی
سورج کی ایک ایک کرن اجلی تھی
پلکیں بوجھل، آنکھیں بند، حواس مسخر
چڑھتی دھوپ میں اک نشہ تھا
اس کا فسانہ اک لکھنا تھا
کمرے کی خاموش فضا خالی تھی
قرب کی خوشبو
کنچن کایا
سانس کے سرگم
سب تحلیل ہوئے تھے
جیسے فسانہ ختم ہوا تھا
ڈھلتی دھوپ میں زہر بجھا تھا
وہ بیٹھا تھا
جیسے ہاری فوج سے بچھڑا ایک سپاہی
اپنی پسپائی پر گم صم
جسم کے اوپر تیغ سے لکھی تحریروں پر نادم
سوچ رہا ہو زخم شماری سے کیا حاصل
اک جھونکا تھا تیز ہوا کا آیا اور گیا
وہ پتھر کے بت کی صورت، بالکل بے حس بیٹھا تھا
رات کا لمبا گہرا سایا پھیل گیا تھا
نظم
جیسے فسانہ ختم ہوا
راج نرائن راز