EN हिंदी
جہاں دریا اترتا ہے | شیح شیری
jahan dariya utarta hai

نظم

جہاں دریا اترتا ہے

اختر حسین جعفری

;

۱
سرشک خوں رخ مضمون پہ چلتا ہے تو اک رستہ

نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے

لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوان سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے

اسی نقطے کی سولی پر پیمبر بات کرتے ہیں
مجھے چلنا نہیں آتا

شب ساکن کی خانہ زاد تصویرو گواہی دو
فصیل صبح ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا

مرے چشموں میں شور آب یکجا بر شکالی ہے
ندی مقروض بادل کی

مرا دریا سوالی ہے
رگ حرف زبوں میں جو چراغ خوں سفر میں ہے

ابھی اس نقطۂ آخر کے زینے تک نہیں آتا
جہاں جلاد کا گھر ہے

جہاں دیوار صبح ذات کے رخنے سے نگہ خشمگیں
بارود کی چشمک ڈراتی ہے

جہاں سولی کے منبر پر پیمبر بات کرتے ہیں
2

اب ان باتوں کے سکے جیب کے اندر کھنکتے ہیں کہ جن پر
قصر شاہی کے مناظر

اسلحہ خانوں سے جاری حکم کندہ ہیں
بھرے بازار میں طفل تہی کیسہ پریشاں ہے کہ اس کے پاؤں

ٹکسالوں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے

ندی رک رک کے چلتی ہے
تکلم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا

ہوا پسپا جہاں پانی
جہاں موجوں نے زنجیر وفا پہنی سپر گرداب کی رکھ دی

علم رکھے قلم رکھے
خفا بادل نے جن پایاب دریاؤں سے منہ موڑا

جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے

طناب راہ کٹتی ہے کہیں خیمہ اکھڑتا ہے
وہاں سے دور ہے ندی

وہاں سے دور ہے بچہ کہ اس کے پاؤں
دریاؤں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں

اور اس کا باپ گونگا ہے
اسے چلنا نہیں آتا

فصیل صبح ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا
3

سحر کے پاس ہیں منسوخ شرطیں صلح‌ نامے کی
صبا درس‌ زیاں آموز کی تفصیل رکھتی ہے

کسی تمثیل میں تم ہو
کسی اجمال میں میں ہوں

کہیں قرطاس خالی کا وہ بے عنوان ساحل ہے
جہاں آشفتگان عدل نے ہتھیار ڈالے ہیں

بہت ذاتیں ہیں صدموں کی
کئی حصے ہیں سینے میں نفس گم کردہ لمحے کے

کئی طبقات ہیں دن کے
کہیں صبح مکافات سخن کے منطقے میں تم مقید ہو

کسی پچھلے پہر کے صلح‌ نامے کی عدالت میں
کڑی شرطوں پر اپنے دستخط کے روبرو میں ہوں

سنو قرطاس خالی کے سپر انداز ساحل سے
ہوا کیا بات کہتی ہے

ادھر اس دوسرے ساحل سے جو ملاح آیا ہے
زمینیں بیچتی بستی سے کیا پیغام لایا ہے

کوئی تعزیر کی دھمکی
کوئی وعدہ رہائی کا

کوئی آنسو
کوئی چھٹی