میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں
سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں
اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن
لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا
ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں
اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں
جو برسوں میں پورے ہوں گے ایسے منصوبوں کی باتیں کہتی ہیں
ہم سب زندہ ہیں
عرصے تک زندہ رہنا ہے
اگلے بیس برس میں بستی
اپنی پکی سڑکیں لے کر
جنگل کے کونے کونے میں
بستی کا محفوظ تصور پہنچا دے گی لیکن جنگل
سڑکیں بننے سے پہلے ہی
جنگل کا قانون اٹھائے آ جاتا ہے
بستی جنگل بن جاتی ہے
سب زندہ ہیں
بستی جنگل
عرصے تک زندہ رہنا ہے
بستی جنگل

نظم
جب جنگل بستی میں آیا
فضل تابش