EN हिंदी
جاؤ اب روتے رہو | شیح شیری
jao ab rote raho

نظم

جاؤ اب روتے رہو

رفیق سندیلوی

;

تم نہیں جانتے
اس دھند کا قصہ کیا ہے

دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں
ایک زنجیر

کسی پھول کسی شبد
کسی طائر کی

ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق
کسی پانی کی

زلف و رخسار
لب و چشم کی پیشانی کی

تم نہیں جانتے
اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے

یہ فسوں کار تماشا کیا ہے!
تم نے بس دھند کے اس پار سے

تیروں کے نشانے باندھے
اور ادھر میں نے تمہارے لیے

جھنکار میں دل رکھ دیا
کڑیوں میں زمانے باندھے

جاؤ اب روتے رہو
وقت کے محبس میں

خود اپنے ہی گلے سے لگ کر
تم مرے سینۂ صد رنگ کے

حق دار نہیں
اب تمہارے مرے مابین

کسی دید کا
نادید کا اسرار نہیں!!