مجھے جانے والے کا غم تو نہیں ہے
کہ جانا مقدر ہے
لیکن مجھے اس سے یہ پوچھنا ہے
کہ پہلے سفر کی حکایات میں گر تہی دامنی ہے
تو پھر کون سی منزلوں کی طلب میں
یہ عزم سفر ہے
یہ عزم سفر ہے تو وقت سفر پھر
اداسی کی بے نور چادر لپیٹے
نگاہوں میں ویرانیوں کو بسائے
ہر اک آنے والے سے کیوں کہہ رہا ہے
وہ آنسو بہائے
مجھے جانے والے سے یہ پوچھنا ہے
کہ اندھے سفر کی حکایات میں
گر تہی دامنی ہے
تو ہم کو خبر دے
کہ ہم اپنے پہلے سفر ہی میں رستے بدل لیں
نظم
جانے والے کا نوحہ
فیاض تحسین