لمبے وقت سے سوچ رہا ہوں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
ملنے سے گھبراتا ہوں میں جھوٹ نہیں کہہ پاتا ہوں
اس کے شکوے اس کی شکایت جھگڑے سے ڈر جاتا ہوں
ادھر ادھر کی باتیں مجھ کو ذرا نہ خوش کر پاتی ہیں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
دوست نہیں بن پاتے میرے
رشتے نہیں سنبھلتے ہیں
بے جا محبت بے جا تکلف
دونوں اوچھے لگتے ہیں
اوروں کی کمیوں کو بالکل
اچھا نہیں کہہ پاتا ہوں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
اچھے بھلے کاموں میں اکثر
دیر بہت کر دیتا ہوں
امی سے باتیں کرنی ہوں بیٹی کے اسکول ہو جانا
کوئی نیا ناول پڑھنا ہو کوئی کہانی لکھنی ہو
سب کو ٹالتا رہتا ہوں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
بھیڑ بھرے شہروں سے مجھ کو
وحشت سی ہو جاتی ہے
گاؤں جنگل سنسان جگہیں
اکثر خوش آ جاتی ہیں
کوئی الھڑ چہرہ دیکھوں من کو وہ بھا جاتا ہے
جانے کیوں ایسا ہوں میں
پیڑوں کے پیراہن دیکھوں پھولوں کی خوشبو کو سونگھوں
رنگ برنگی تتلیاں پکڑوں ہلکی ہلکی بوندیں بھی
ٹھنڈی نرم ہوائیں جب جب چپکے سے چھو جاتی ہیں
یا کوئل کی بولی سن لوں من بیاکل ہو جاتا ہے
جانے کیوں ایسا ہوں میں
نٹ بنجارن سنیاسی اور کھیل تماشے والے لوگ
کھنڈر ویرانہ جلتی دھوپ پھولی سرسوں دھان کے کھیت
لال پتنگ اور پیلی مینا اندر دھنش اور ندی کی دھار
آتے ہیں جب خواب میں میرے دیوانہ ہو جاتا ہوں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
بہت مجھے اچھا کہتے ہیں برا بھی کوئی کہتا ہے
سامنے میری مدح سرائی پیچھے گالی دیتا ہے
ہمدردی ہے کوئی دکھاتا کوئی سازش کرتا ہے
پھر بھی چپ چپ سا رہتا ہوں جیسے بہت انجان ہوں میں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
تھوڑی سی آزادی مجھ کو تھوڑا بہت وقت کا زیاں
کبھی کبھار کی اچھی باتیں کسی کسی کا سچا پیار
چھوٹی موٹی کوئی شرارت کھلکھلا کر ہنسنا بھی
یہ سب خوش کر جاتے ہیں جب تو
لگتا ہے کہ زندہ ہوں
جانے کیوں ایسا ہوں میں
نظم
جانے کیوں ایسا ہوں میں
ابو بکر عباد