EN हिंदी
اتفاق | شیح شیری
ittifaq

نظم

اتفاق

بلراج کومل

;

تمام لوگ ابتدا میں
ایک دوسرے کے سامنے

ہجوم میں دکھائی دینے والے کچھ نشاں
محض اجنبی

پھر یکا یک معجزہ طلوع کا
اور ایک روئے آفتاب

بادلوں کے پار سے نکل کے رو بہ رو
خرام نور کو بہ کو

پرانا شہر
وقت شام

پھیلتا امڈتا اجنبی ہجوم
ہاؤ ہو کے درمیان معجزہ ہوا

اور ایک مضطرب حسین روئے دل گداز
میرے جسم و جاں میں دیکھتے ہی دیکھتے سما گیا

وہ روشنی تھا موج آفتاب تھا
بس اک نظر میں جیسے میں نے اس کو پا لیا

میں دم بخود سا رہ گیا
یہ حادثہ تھا واقعہ تھا کیسا اتفاق تھا

طلوع نور کے جلو میں
اک طویل پر خطر سیاہ رات

شہر میں اتر گئی