EN हिंदी
عشق ناتمام | شیح شیری
ishq-e-na-tamam

نظم

عشق ناتمام

خورشید اکبر

;

کون کہتا ہے ہم تم جدا ہو گئے
زندگی سے اچانک خفا ہو گئے

ہجر عالم پہ چھایا تھا کچھ اس طرح
وصل کے خواب وقف دعا ہو گئے

وقت میزان میں جانے کیا بات تھی
تیر جو بے خطا تھے خطا ہو گئے

ہم کہ جس بت کو بے جان سمجھا کیے
وہ زمانے میں کیوں دیوتا ہو گئے

ایک دن یوں ہوا حسن سرکار میں
مدعی جو نہ تھے مدعا ہو گئے

کچھ ارادے بھی تھے کچھ تماشے بھی تھے
رقص کے عکس بھی ماورا ہو گئے

دیکھتے دیکھتے ہم فنا تھے مگر
دیکھتے دیکھتے تم خدا ہو گئے