وہ ایک لمحہ کہ
لم یزل نے ازل کی خوش بخت ساعتوں کا خمیر لے کر
ہمارے خوں کی رطوبتوں میں بھگو کے
اک منحنی سے پیکر میں ڈھال کر
دھیرے دھیرے
آزمائش کے مرحلوں سے گزار کر
جس کو دم کیا تھا
وہ ایک لمحہ کہ طرح جس کہ
سمندروں کی روایتوں سے
ہواؤں کی سنسناہتوں کی حکایتوں سے
خلیق مٹی کی سوندھی سوندھی امانتوں سے
جھلستے سورج کی برگزیدہ تمازتوں سے
عمل میں آئی وہ ایک لمحہ کہ
سب عوامل اسیر کر کے
زماں کی یک رنگ سرحدوں کو پھلانگ کر جب
مکاں کی پیچیدہ وسعتوں پر رقم ہوا تھا
امیں ہے سچی عبادتوں کا
ہمارے ماتھے پہ جو لکھے ہیں
حلیف ہے ساری عظمتوں کا صداقتوں کا
ہمارے خوں میں جو رچ گئی ہیں
حریف ہے سب کدورتوں کا، عداوتوں کا، صعوبتوں کا
ہماری بنجر زمیں کے سینے سے جو اگی ہیں
عظیم مرکز ہے ناشنیدہ عنایتوں کا، محبتوں کا، رفاقتوں کا، مروتوں کا
ہماری روحوں میں جو بسی ہیں
ہم اپنے خالق کی کون سی نعمتوں سے انکار کر سکیں گے
کہ سجدہ گاہ یقیں سے
پھوٹی ہوئی کرن میں اسیر ہیں ہم
بلندیوں کے سفیر ہیں ہم
گزشتہ صدیوں کے معجزوں کی نظیر ہیں ہم
عظیم دانش کو ہم نے
حرف و نوا کی رنگیں ردا عطا کی
ضرورتوں کی قبا عطا کی
وہ ایک لمحہ کہ
آرزو میں ازل سے جس کی
حقیقتوں کی
جھلستی دہلیز پہ
ہم نے تم نے
مباشرت کے تمام آسن ہی آزمائے
اگر ہمارے دلوں میں دیوار جاں اٹھائے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ
ہم محبت کے بیج بو کر عداوتوں کے شجر اگائیں
جو ایک لمحہ ہم
اپنے خالق کے نام منسوب کر چکے ہیں
وہ ایک لمحہ اگر نہ آئے
مگر یہ امکاں کی سرحدوں سے گریز ہوگا
گریز جو آسماں سے اترے
کسی صحیفے کی وا جبیں پر
رقم نہیں ہے
ہم اپنے خالق کی کون سی نعمتوں سے انکار کر سکیں گے

نظم
اثبات
مظفر ایرج