اس گلی کے موڑ پر اک عزیز دوست نے
میرے اشک پونچھ کر
آج مجھ سے یہ کہا
یوں نہ دل جلاؤ تم
لوٹ مار کا ہے راج
جل رہا ہے کل سماج
یہ فضول راگنی
مجھ کو مت سناؤ تم
بورژوا سماج ہے
لوٹ مار چوریاں اس کا وصف خاص ہے
اس کو مت بھلاؤ تم
انقلاب آئے گا
اس سے لو لگاؤ تم
ہو سکے تو آج کل مال کچھ بناؤ تم
کھائی سے نکلنے کی آرزو سے پیشتر
دیکھ لو ذرا جو ہے دوسری طرف ہے گڑھا ہے
آج ہیں جو حکمراں ان سے بڑھ کے خوفناک ان کے سب رقیب ہیں
دندنا رہے ہیں جو لے کے ہاتھ میں چھرا
شکر کا مقام ہے
میری مسخ لاش آپ کو کہیں ملی نہیں
اک گلی کے موڑ پر
میں نے پوچھا واقعی
سن کے مسکرا دیا کتنی دیر ہو گئی
لیجئے میں اب چلا اس کے بعد اب کیا ہوا
کھڑکھڑائیں ہڈیاں
اس گلی کے موڑ سے وہ کہیں چلا گیا
نظم
اس گلی کے موڑ پر
فہمیدہ ریاض