خاک پر اک بوند لپکی
بوند جم کر لوتھڑا
اس لوتھڑے میں ہڈیاں
پھر ہڈیوں پر ماس آیا
ماس جس پر نقش ابھرے
نقش کو جنبش ملی
اور خامشی کی کوکھ خالی ہو گئی
چیخ پہلی گفتگو تھی
تھم گئی تو اس سے پھوٹا قہقہہ
جب تھک کے ٹوٹا قہقہہ
تب آخری آواز سسکی
جنبشیں ساکت ہوئیں
اور قبر کی خاموشیوں میں
نقش پگھلے ماس اترا
ہڈیاں عریاں ہوئیں اور منہدم
لوتھڑا گل سڑ کے پھر سے بوند تھا
اور بوند دھرتی کھا گئی
ہائے میرے ابتلا کی انتہا ابتدا تک آ گئی
نظم
ارتقا
سید مبارک شاہ