میرے باپ نے مرتے دم بھی
مجھ سے بس یہ بات کہی تھی
گردن بھی اڑ جائے میری
سچ بولوں میں جھوٹ نہ بولوں
اس دن سے میں آج کے دن تک
پگ پگ جھوٹ سے ٹکر لیتا
سچ کو ریزہ ریزہ کرتا
اپنے دل کو ان ریزوں سے چھلنی کرتا
خون میں لت پت گھوم رہا ہوں
اور مرا دامن ہے خالی
لیکن اب میں تھک سا گیا ہوں
برگد کی چھایا میں بیٹھا کتنی دیر سے سوچ رہا ہوں
کیوں نہ جھوٹ سے ہاتھ ملا لوں
اور چپکے سے قبر پہ اپنے باپ کی جا کر اتنا کہہ دوں
تم جھوٹے تھے
نظم
عرفان
سلیمان اریب