دیوار سے لٹکائے
افسردہ کھڑا ہے یوکیلپٹس کا درخت
سوچ میں گم
اب تک وہ سنہرے بال والی
شوخ کرن آئی نہیں
آتے ہی لپٹ جائے گی میرے جسم سے بیلوں کی طرح
رات پگھلتی رہی ہے بوند بوند
دم توڑتی ہیں آخری ساعتیں
اے دل ناداں دل بے تاب ٹھہر
بس کچھ ہی پل اور صبر کر
اجالا ہونے بھر

نظم
انتظار کے دوش پر
پرویز شہریار