EN हिंदी
انتظار | شیح شیری
Intizar

نظم

انتظار

اسلم عمادی

;

کبھی تم ہنس پڑو
کبھی

میں ہنس رہوں
کہ ہم سب ایک ہی ڈالی پہ اپنے اپنے لمحے میں

مہکنے اور مرجھانے کی خاطر
پھول ہیں

جدھر آ جائے موج روح پرور
پتیاں چمکیں

فضا مہکے
مگر کب آئے کس جانب یہ گہرا راز ہے

شاید کبھی چلتے ہوے دھارے میں
کوئی سبزہ اگ آئے

کوئی آواز خاموشی میں اپنے پر ہلائے
مگر کب اور کس جانب یہ گہرا راز ہے