شکایت نہ کرنا
اگر یہ زمانہ پکارے تمہیں
اور صدا میری آواز کی گونج ہو
شکایت نہ کرنا
اگر لوگ مڑ مڑ کے دیکھیں تمہیں
اور ہر شکل میں میری مسکان تم کو
دکھائی بھی دے اور سنائی بھی دے
شکایت نہ کرنا
اگر ہر زباں پر
تمہارے بجائے مرا نام ہو
تمہیں میری آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے
سوچنا چاہئے تھا
یہاں سانس لیتے ہوئے خواب
ہر آنکھ کے خواب جیسے نہیں ہیں
یہاں خواب آنکھوں سے بہہ جائیں تو
اشک بنتے نہیں ہیں
پگھلتے نہیں ہیں
تمہیں میرے ہاتھوں کی نرمی کو محسوس کرتے ہوئے
بھولنا تو نہیں چاہئے تھا
کہ اک ہاتھ میں ایک خالی ورق
دوسرے میں قلم ہے
شکایت نہ کرنا
اگر خوش نما روشنائی میں پہلے ورق پر
تمہیں لوگ پڑھ لیں
نظم
انتساب
عنبرین صلاح الدین