اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگ بنیاد فرنگ!
اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے'' ہونٹوں'' نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!
نظم
انتقام
ن م راشد