شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
باد مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپرد خزاں کر دیے
بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیرممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں
ان گنت کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں
ان گنت تھے مرے زخم دل
ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ہوئے زرد پتوں، برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زائیدہ کا خندۂ زیر لب
زخم دل مندمل ہو گئے سب کے سب!
نظم
اندمال
شکیب جلالی