امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب
ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب
صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب
خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب
پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں
''لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں''
وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام
سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام
ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام
ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل
ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل
آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ
پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ
حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ
کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ
بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار
امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں
امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں
کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں
''یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں''
اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی
اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی
حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین
ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین
گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین
سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین
کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا
''یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا''
رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے
کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے
کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے
نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے
نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا
معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا
جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں
غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں
ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں
آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں
کچھ تو ہے آخر جو گیس پیپر میں آیا یاد تھا
جس نے پیپر سیٹ کیا ہے وہ مرا استاد تھا
نظم
امتحان
سید محمد جعفری