EN हिंदी
اک تنہا بے برگ شجر | شیح شیری
ek tanha be-barg shajar

نظم

اک تنہا بے برگ شجر

وزیر آغا

;

کون مجھے دکھ دے سکتا ہے
دکھ تو میرے اندر کی کشت ویراں کا

اک تنا بے برگ شجر ہے
رت کی نازک لانبی پوریں

کرنیں خوشبو چاپ ہوائیں
جسموں پر جب رینگنے پھرنے لگتی ہیں

میرے اندر دکھ کا سویا پیڑ بھی جاگ اٹھتا ہے
تنگ مساموں کے غرفوں سے

لمبی نازک شاخیں پھن پھیلا کر
تن کی اندھی شریانوں میں قدم قدم چلنے لگتی ہیں

شریانوں سے رگوں رگوں سے نسوں کے اندر تک
جانے لگتی ہیں

پھر وہ گرم لہو میں مل کر
اک اک بال کی جڑ تک پھیلتی جاتی ہیں

اور یہ میرا صدیوں پرانا مسکن خاکی مسکن
خود بھی ایک شجر بن جاتا ہے

وقت کی قطرہ قطرہ ٹپکتی
سرخ زباں کی نوک پہ آ کر

جم جاتا ہے