اک حرف فسردہ داغ میں ہے
اک بات بجھے چراغ میں ہے
اک نام لہو کی گردشوں میں
طوفان میں ڈولتا سفینہ
ڈوبے نہ بھنور کے پار اترے
اک شام کہ جس کے بام و در کو
ہاری ہوئی صبح سے شکایت
روٹھے ہوئے چاند کی تمنا
اک راہ نورد جو یہ چاہے
پاؤں نہ حد وفا سے نکلے
سر سے نہ سفر کا بار اترے
نظم
اک حرف فسردہ داغ میں ہے
اختر حسین جعفری