اک اور گھر بھی تھا مرا
جس میں میں رہتا تھا کبھی
اک اور کنبہ تھا مرا
بچوں بڑوں کے درمیاں
اک اور ہستی تھی مری
کچھ رنج تھے کچھ خواب تھے
موجود ہیں جو آج بھی
وہ گھر جو تھی بستی مری
یہ گھر جو ہے بستی مری
اس میں بھی تھی ہستی مری
اس میں بھی ہے ہستی مری
اور میں ہوں جیسے کوئی شے
دو بستیوں میں اجنبی
نظم
اک اور گھر بھی تھا مرا
منیر نیازی