وہ اک لڑکی
جو خاموشی میں بھی اکثر چہکتی تھی
صبح سے شام تک اور رات میں بھی باتیں کرتی تھی
سبھوں کو شاد رکھتی تھی بہت مسرور رہتی تھی
کبھی بادل کبھی خوشبو کبھی گل رنگ کی صورت
برستی تھی بکھرتی تھی بدلتی تھی
مگر محسوس ہوتا تھا ہمیشہ پاس رہتی ہے
جو وہ انجان بنتی تھی
عزیز از جان لگتی تھی
کبھی چنچل ہوا پنچھی کے پنکھوں اور ندی کے لمس کی مانند
اتر آتی تھی دل میں روح کو پر کیف رکھتی تھی
کبھی ہونٹوں کے رس آنکھوں کی شبنم گالوں کے خوش رنگ موسم سے
نشے کو جھیل کو گلبن کو بھی وہ مات دیتی تھی
میں اس کے لمس سے رخساروں کی دھیمی تمازت گرم سانسوں سے
بہت قربت بہت اپنائیت محسوس کرتا تھا
ذہن کے پاس پاتا تھا اسے اپنا سمجھتا تھا
مگر پھر کیا ہوا اک دن کہ اک بد بخت ڈائن نے
خدا جانے کہاں بھیجا کہ سب لا علم ہیں اس سے
مگر پہنچے ہوئے درویش نے یہ بھید کھولا ہے
بسیرا اس کا اب ہے چاندنی کے کنج
ستاروں کے بغیچوں میں
وہ ان کی سیر کرتی ہے مگر غمگین رہتی ہے
اسے سب وہم کہتے ہیں خلاف عقل کہتے ہیں
مگر پکا یقیں ہے جب کوئی ٹوٹا ہوا تارا
زمیں کو چومنے آئے گا وہ بھی ساتھ آئے گی
پھر اپنے ساتھ وہ خوشیوں کے صدہا گل بھی لائے گی
سو ہر شب جاگتا ہوں
راہ میں آکاش کی آنکھیں بچھاتا ہوں
مگر جو تارا آتا ہے زمیں تک آ نہیں پاتا
نظم
اک ادھوری داستان
ابو بکر عباد