EN हिंदी
ایرانی طلبا کے نام | شیح شیری
irani talaba ke nam

نظم

ایرانی طلبا کے نام

فیض احمد فیض

;

یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی

اشرفیاں چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے

کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی ہیں

یہ کون جواں ہیں ارض عجم
یہ لکھ لٹ

جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن

یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے

اے ارض عجم، اے ارض عجم!
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے

ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں

ان ہاتھوں کی ''بے کل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی''

اے پوچھنے والے پردیسی
یہ طفل و جواں

اس نور کے نو رس موتی ہیں
اس آگ کی کچی کلیاں ہیں

جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا

صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن،

ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،

جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی

پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر

یہ امن کی دیوی کا کنگن!