اجاڑ سی دھوپ
آدھی ساعت
کہ نا مکمل علامتیں
داغ داغ آنکھیں
یہ ٹیلہ ٹیلہ
اترتی بھیڑیں
کہاں ہے
جو ان کے ساتھ ہوتا تھا
اک فرشتہ
کٹی پھٹی زرد
شام سے
کون بڑھ کے پوچھے
کہ ایک اک برگ
آگہی کا
ہوا کے پیلے
لرزتے ہاتھوں سے گر رہا ہے
تمام موسم بکھر رہا ہے
کہ دھیمے دھیمے سے آتی شب کا
یہ آبی منظر
خنک سا شیشہ
کہ وادی وادی کے درمیاں ہے
اگر ادھر کی صدا ہے کوئی
تو اس طرف ہے
ادھر کی آواز
اس طرف ہے
نظم
ادھر کی آواز اس طرف ہے
راجیندر منچندا بانی