EN हिंदी
آئیڈیل | شیح شیری
ideal

نظم

آئیڈیل

عبید اللہ علیم

;

میری آنکھوں میں کوئی چہرہ چراغ آرزو
وہ میرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی

ایسا موسم جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی
یا کوئی ہے خواب

جو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے
یاد کرنے پر بھی یاد آیا نہ تھا

دل یہ کہتا ہے وہی ہے ہو بہو
جس کو دیکھا تھا کبھی اور سامنے پایا نہ تھا

گفتگو اس سے ہے اور ہے روبرو
خواب ہو جائے نہ لیکن گفتگو

میری آنکھوں میں کوئی چہرہ چراغ آرزو