جب کتابوں کے نوشتوں سے پھسل کر
مری درماندہ نگاہ
چار سو پھیلے ہوئے صفحۂ ایام پہ جا پڑتی ہے
دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے
ابھر آتے ہیں دکھتے ہوئے جاں کاہ سوال
پھر اسی ہوک کے لہجے میں خدا بولتا ہے
زندگانی کی کڑی شرطیں ہیں
یہ عبادت ہے تمہاری کہ مرے بخشے ہوئے دکھ جھیلو
ان پرندوں کا، بہائم کا تصوف دیکھو
کیسے منقار شکستہ طائر
دانے دانے کو ترس جاتا ہے دانوں میں گھرا
مشت پر خاک میں ڈھل جاتی ہے رفتہ رفتہ
جان کھو دینے کے بے زار ارادے کے بغیر
کسی شکوے کے بغیر''
اور یہ مجھ سے بڑا درس سمجھ میں نہیں آتا میری
کس لیے اس کی مشیت نے کیا دکھ پیدا
سوچتا ہوں تو ڈھلک آتے ہیں اشکوں میں سوال
ہے مری سوچ مرے اپنے لیے ایک عذاب
اس پہ عائد ہی نہیں میرے سوالوں کا جواب
نظم
ہوک
خورشید رضوی