کیا غضب ہے حسن کے بیمار ہونے کی صدا
جیسے کچی نیند سے بیدار ہونے کی ادا
انکسار حسن پلکوں کے جھپکنے میں نہاں
نیم وا بیمار آنکھوں سے مروت سی عیاں
جنبش مژگاں میں غلطاں ساز غم کا زیر و بم
خامشی میں پر فشاں ایفائے پیماں کی قسم
احترام عشق کی رو دل نشیں آواز میں
ایک پھیکے پن کا سناٹا دیار ناز میں
الاماں آنکھوں کی نیم افسردہ سی افسوں گری
ایک دھندلا سا تبسم اک تھکی سی دلبری
چوڑیاں ڈھیلی دلائی پر شکن ماتھے پہ ہات
لب پہ خشکی رخ پہ سوندھا پن نظر میں التفات
ہلکی ہلکی جھلکیاں رخسار پر یوں نور کی
جیسے گل پر صبح کاذب کی سہانی چاندنی
لے رہا ہے کروٹیں عارض میں یوں رنگ شباب
جس طرح موج خراماں پر ضیائے ماہتاب
حسن یوں کھویا ہوا سا بزم محسوسات میں
جیسے دونوں وقت ملتے ہوں بھری برسات میں
یوں ہے اک روشن نمی سی چشم سحر انداز میں
صبح کو شبنم ہو جیسے معرض پرواز میں
جیسے کہرے میں کوئی تابندہ منظر دور کا
جیسے پچھلی رات کے سینے پہ ڈورا نور کا
ایسے اضمحلال پر دنیا کی برنائی نثار
ایسی بیماری پر اعجاز مسیحائی نثار
نظم
حسن بیمار
جوشؔ ملیح آبادی