ہے یہ احباب کو اصرار کہ ہولی کھیلوں
توڑ دوں آج تو میں زہد و تقدس کا فسوں
مست ہو کر میں پیوں جام شراب ہستی
ہمہ تن بادۂ عشرت کے نشے میں جھوموں
اپنی سنجیدہ روش اور اداسی چھوڑوں
غم کے اصنام کو بت خانۂ دل میں توڑوں
جل اٹھیں غم کے شبستاں میں مسرت کے چراغ
بربط دل کے ہر اک تار کو پھر سے جوڑوں
مجھ کو بہلائیں گے کیا اہل طرب کے نغمے
اور تیوہار کی رنگین خوشی کے لمحے
میں نے ہر نقش مسرت کو دبا رکھا ہے
اور دیکھے ہیں حسیں دور کے سندر سپنے
سونی سونی نظر آتی ہے بساط ہستی
نہ کہیں شیشہ و ساغر نہ سرور و مستی
چشم مفلس میں لرزتے ہوئے اشکوں کے چراغ
قلب نادار ہے جیسے کوئی اجڑی بستی
آج انسان کا انسان لہو پیتا ہے
آج تہذیب کا سلطان یوں ہی جیتا ہے
دیوتا جبر پہ راون کے ہراساں جیسے
دامن ارمان کو نادار یوں ہی سیتا ہے
آج انسان ہوا مکر و دغا کا دفتر
قلب زردار ہے احساس خودی کا خوگر
بے خبر ہو کے غریبوں کی دبی آہوں سے
آدمی کبر و رعونت کا بنا ہے پیکر
ہولیاں کھیلتے ہیں خون بشر سے منعم
اپنے اعمال پہ ہوتا نہیں انساں نادم
آہ افلاس سے ٹھکرائی جوانی کا شباب
فکر کی دھوپ سے لرزاں ہے مثال مجرم
قلب محکوم ہے اس دور میں سنسان دیار
ہو گیا ہے دل مجبور دکھوں سے بیزار
کیا نہ آئے گا کبھی دہر میں پرہلاد کا دور
آگ ہولی کی کسی روز بنے گی گلزار
مطمئن آج نہ دنیا کا مکیں ہے کوئی
دہر میں کبر سے خالی نہ جبیں ہے کوئی
آج زردار بنا بیٹھا ہے ہرناکشیپ
آہ اس دور میں دم ساز نہیں ہے کوئی
ہر طرف کبر و رعونت کے سلگتے ہیں الاؤ
ہر طرف زیست کے گلشن میں ہے شعلوں کا جماؤ
آج پھر ہولکا پرہلاد کو لے بیٹھی ہے
پھر سے اس جلتی ہوئی آگ کو گلزار بناؤ
پھر بدلنے ہیں مجھے بیکس و مجبور کے بھاگ
آج بھی ڈستے ہیں نادار کو زردار کے ناگ
جذب احساس کے شعلوں کی تپش سے اک دن
زر کی لنکا میں لگا دینا ہے اک بار پھر آگ
نظم
ہولی کھیلنے کی فرمائش پر
کنولؔ ڈبائیوی