ہم سے نظر ملائیے ہولی کا روز ہے
تیر نظر چلائیے ہولی کا روز ہے
بڑھیا شراب لائیے ہولی کا روز ہے
خود پیجئے پلائیے ہولی کا روز ہے
پردہ ذرا اٹھائیے ہولی کا روز ہے
بے خود ہمیں بنائیے ہولی کا روز ہے
سنجیدہ کیوں ہوئے مری صورت کو دیکھ کر
سو بار مسکرائیے ہولی کا روز ہے
یوں تو تمام عمر ستایا ہے آپ نے
للہ نہ اب ستائیے ہولی کا روز ہے
بچے گلی میں بیٹھے ہیں پچکاریاں لیے
بچ بچ کے آپ جائیے ہولی کا روز ہے
دنیا یہ جانتی ہے غزل گو نحیفؔ ہیں
ان کی غزل سنائیے ہولی کا روز ہے

نظم
ہولی
جولیس نحیف دہلوی