پہلے زمانہ اور تھا مے اور تھی دور اور تھا
وہ بولیاں ہی اور تھیں وہ ٹولیاں ہی اور تھیں، وہ ہولیاں ہی اور تھیں
لیکن مرے پیر مغاں
کل تو نیا انداز تھا
اک دور کا تھا خاتمہ اک دور کا آغاز تھا
تیرے وفاداروں نے جب کھیلیں گلابی ہولیاں
نکلے بنا کر ٹولیاں
ہنستے چلے گاتے چلے
اپنے گلابی رنگ سے دنیا کو نہلاتے چلے
مسجد سے منہ موڑے ہوئے
مندر کا سنگ آستاں چھوڑے ہوئے
گرجا سے کترائے ہوئے
جیسے کہ ہوں روحانیت کی زندگانی ہی سے گھبرائے ہوئے
دور وفاداری کا یہ انجام تھا
فکر گنہ گاری کا تازہ دل ربا پیغام تھا
تیرے ہی کوچے میں یہ سب عہد وفا توڑے گئے
رشتے نئے جوڑے گئے
اور پھر گنہ گاروں نے کیا رندانہ ہنگامے کیے
اس وقت ان کو یاد تھا بس ایک ترسانا ترا
مفلسوں ناداروں کو للچانا ترا
جب میکدے کی گود میں
تیرے جفا تیری سزا کے نام پر ساغر چلے
سوکھے ہوئے کاسے لبالب بھر چلے
سب اپنے لب تر کر چلے
پھر توڑ دیں وہ پیالیاں جن میں سدا پی آئے تھے
شیشے چھنا چھن چھن چھنا چھن ٹوٹتے
اور رند لذت لوٹتے
ٹوٹے ہوئے شیشوں کا اک انبار تھا
شیشوں کے اس انبار میں اک وہ بھی کہنہ جام تھا
جس کو سکندر کے قوی ہیکل جواں
بھاگے تھے پورس کی زمیں کو چھوڑ کر
ان میں وہ کاسے بھی تو ہیں جن کو عرب لے آئے تھے
اپنی عبا سے ڈھانپ کر
پینے سے پہلے دیکھتے تھے محتسب کو جھانک کر
لیکن کبھی
پینے سے باز آتے نہ تھے فاتح جو تھے
ان میں ہیں ایسے جام بھی
جن پر پٹھانوں کے قوی ہاتھوں کے دھندلے سے نشاں
کچھ آج بھی موجود ہیں
اور ان نشانوں میں ہے خوں مفتوح ہندستان کا
اور ان میں ہیں وہ جام بھی جن کو مغل لے آئے تھے
تاتار سے قندھار سے کابل سے رکنا باد سے
مفتوح ہندستان میں
جن کو وہ اپنے قصر عالیشاں میں چھلکاتے رہے
تیغوں سے کھنکاتے رہے
اور وہ حسیں نازک سبک ہلکی صراحی کس کی ہے
پیرس کے مے خانوں میں یہ مشہور تھی
لایا تھا اک تاجر اسے جو بعد میں فاتح بنا
یہ ہلکے شیشوں کے گلاس اور یہ نئے ہلکے سے پیگ
جن پر لکھا ہے یہ بنے تھے ملک انگلستان میں
اور حال کی صدیوں میں چلتے رہے
پینے کو مل جاتی تھی پی لیتے تھے ہم
لیکن تہی دستی کا یہ عالم تھا دل جلتے رہے
ہم آج گھبرا ہی گئے
اور ان سبھی شیشوں کو چکناچور کر ڈالا وفور جوش میں
چھن چھن چھنا چھن توڑ کر
جیسے کہ بربادی کی دیوی چھم چھما چھم ناچتی
ہولی منانے کے لیے مے خانے میں آ ہی گئے
ٹوٹے ہوئے شیشوں کے اس انبار پر
ہم نے جلائی آگ یوں
زردشت کا پاکیزہ دل سچائیوں پر ہنس دیا
جیسے کہ یہ کہنے لگا
جلنے دو جلنے دو یوں ہی شیشے پگھلنے دو یوں ہی
تیرے وفاداروں نے یوں پیر مغاں
شب بھر جلائیں ہولیاں
نعرے وہ مستانے لگے اس جوش میں
دل گر پڑے احساس کی آغوش میں
اور بول اٹھے تسلیم اے پیر مغاں جاتے ہیں ہم
کل پھر پلٹ کر آئیں گے
اس وقت اس مے خانے میں سامان ہوں گے دوسرے
تیرے پرانے ذہن کے معیار توڑے جائیں گے
تعمیر نو کی جائے گی
لیکن ہمارے سال خوردہ مہرباں پیر مغاں
تجھ کو برا لگتا ہے کیوں
غیروں کا کیا تیرا بھی کیا
یہ مے کدہ ہم سب کا ہے پنچایتی
تو کیا ہے تیرا خوف کیا
کہہ تو دیا پیر مغاں کل پلٹ کر آئیں گے
ہرگز نہ ہم باز آئیں گے
کس کو ڈراتا ہے کہ تم اس کی سزا پا جاؤ گے
گاتے تھے ہم گاتے ہیں ہم گائیں گے ہم
ہرگز نہ باز آئیں گے ہم
جھیلیں گے جیتے جائیں گے
پیروں میں ہے زنجیر لیکن ٹوٹ بھی سکتی ہے یہ
ہاں آج ہستی قید ہے کل چھوٹ بھی سکتی ہے یہ
گانے دے گانے دے ہمیں
دھومیں مچانے دے ہمیں
شیشے کو شیشے سے لڑانے دے ہمیں
چھن چھن چھنا چھن کی صدا
بڑھنے دے بڑھنے دے ابھی
ہم مست و بے خود ناچتے گاتے جلاتے توڑتے
ہنستے رہیں چلتے رہیں
اور تو بھی خود پیر مغاں
ہولی کے نغمے سن ذرا اور دیکھ اپنی آنکھ سے
تیرے وفاداروں نے کیا کھیلیں گلابی ہولیاں
منہ مے کدے سے موڑ کر ہولی کی یہ ٹولی چلی
گل زار میں
سبزے لچکتی ڈالیاں گنجان، سندر جھاڑیاں
پانی کی سینچی کیاریاں، کانٹوں میں چبھتی پتیاں
یہ سب سہی لیکن یہاں وہ شے کہاں
جس کے لیے مشہور ہے انگور ناب
ہاں کیا کہا پیر مغاں
تلووں کے نیچے پھول ہیں ان میں سے دو اک چن بھی لوں
خالی ہیں گلدستے ترے
تجھ کو نہیں معلوم ابھی
خالی یہ گلدستے ترے خالی ہی رہ جائیں گے اب
پھولوں نے ٹھانی ہے کہ شاخوں ہی پہ مر جائیں گے اب
اور تیرے کمروں میں وہ نہ آئیں گے اب
منہ بند کلیاں اب کہاں
جو اپنی سندر موہنی مسکان کر دیں رائیگاں
اور اپنا گلشن چھوڑ دیں سینے میں خوشبوئیں لیے
اور اجنبی ماحول میں
طاق نظر کی کانپتی زینت بنیں
کلیوں کے منہ اب کھل چکے منہ بند کلیاں اب کہاں
کلیاں کہاں یہ پھول ہیں
خاک چمن کی گود میں آرام جاں یہ پھول ہیں
آتش زباں یہ پھول ہیں
اور دیکھ تو یہ پھول کتنے شوخ ہیں
جو ٹوٹ کر شاخوں سے گر جاتے ہیں تیری راہ میں
اے دلکش پیر مغاں
یہ چاہتے ہیں روک دیں گل زار میں راہیں تری
تیرے لیے چارہ ہی کیا اب رہ گیا
ان بے حیا پھولوں کی آنکھوں کا تو پانی بہہ گیا
اب ہیں یہ ان کی جرأتیں روکیں گے تیرے راستے
تو بھی خدا کے واسطے
ان کو کچل دے پیس دے
ورنہ خدا نخواستہ
یہ روک ہی لیں راستہ
کلیاں نہیں کانٹے ہیں یہ
کانٹوں سے بھی بد تر ہیں یہ نشتر ہیں یہ خنجر ہیں یہ
گل زار میں تیرے قدم کچھ آج تو آئے نہیں
تو نے انہیں سبزوں پہ کی ہے مے کشی
صدیوں سے تیرا دور ہے
گل زار پر ہے حق ترا
تو ڈر گیا پیر مغاں
کتنا بھیانک خواب تھا
تعبیر کچھ بھی ہو مگر
تیرے وفاداروں نے کل
کس آن سے کس بان سے کس شان سے
کھیلیں گلابی ہولیاں
نظم
ہولی
علی جواد زیدی