خواہشوں کے لمس میں ڈوبی ہوئی
دائروں میں گھومتی تنہائیاں
احتباس و جبر کی تاریک شب
مضطرب رنجور گندم گوں سحر
ایسا لگتا ہے اندھیرا کہہ رہا ہو زیر لب
اے کبود و کور چشم اے لعین
تجھ کو بخشی تھی کرن از راہ دل سوزی مگر
تو سمجھتا ہے کہ یہ جود و سخا لطف و عطف
تیرا استحقاق ہے اور تو خدائے آفتاب
جل بجھے مدت ہوئی تیری خدائی کے دئیے
بھاگ جتنا بھاگنا ہے ظلمتوں کے قہر سے
ہو سکے تو پھر جلا بسری محبت کے چراغ
مر گبار عالم میں اک امید کی مبہم کرن
ایک بجھتے دیپ کا مدھم ہراساں ارتعاش
کون جانے ان چراغوں کی ضیا کب تک چلے
نظم
حصار تیرگی
سلمان انصاری