میرے ارد گرد اک حصار ہے
اک حصار جس کے گیر و دار میں
بے اماں غبار میں
میرا جسم میری ذات
تار تار ہے
وقت ایک لفظ جو
اسیر اپنے معنوی بہشت میں
وقت اک تسلسل خیال جس کے دوسرے
اک خلاے بے کراں کی جاں کشاں گرفت ہے
اس حصار سے اگر نکل سکوں
(جسم منجمد چٹان برف کی میں اگر پگھل سکوں)
ریزہ ریزہ جسم کو سمیٹ کر
اک وجود تازہ تر میں ڈھل سکوں
پھر نہ جانے کون سا غبار مجھ کو گھیر لے
کون سا حصار مجھ کو گھیر لے
نظم
حصار اندر حصار
اکبر حیدرآبادی