دھندلائی ہوئی شام تھی
السائی ہوئی سی
اور وقت بھی باسی تھا میں جب شہر میں آیا
ہر شاخ سے لپٹے ہوئے سناٹے کھڑے تھے
دیواروں سے چپکی ہوئی خاموشی پڑی تھی
راہوں میں نفس کوئی نہ پرچھائیں نہ سایہ
ان گلیوں میں کوچوں میں، اندھیرا نہ اجالا
دروازوں کے پٹ بند تھے، خالی تھے دریچے
بس وقت کے کچھ باسی سے ٹکڑے تھے، پڑے تھے
میں گھومتا پھرتا تھا سر شہر اکیلا
دروازوں پہ آواز لگاتا تھا، کوئی ہے؟
ہر موڑ پہ رک جاتا تھا شاید کوئی آئے
لیکن کوئی آہٹ، کوئی سایہ بھی نہ آیا
یہ شہر اچانک ہی مگر جاگ پڑا ہے
آوازیں حراست میں لیے مجھ کو کھڑی ہیں
آوازوں کے اس شہر میں میں قید پڑا ہوں
نظم
حراست
گلزار