EN हिंदी
ہراس | شیح شیری
hiras

نظم

ہراس

ساحر لدھیانوی

;

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخئیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے

یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہن رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے

رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
تیرے انفاس ترے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے

رات کے خواب اجالے میں بیاں تو کر دوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن تیری نگاہوں کا سکوت
در حقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو

میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں

میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاؤں مرے تھرا جائیں
اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے

اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں
اور ترے ریشمی آنچل کا کنارا نہ ملے