EN हिंदी
ہجر | شیح شیری
hijr

نظم

ہجر

عظیم الدین احمد

;

تو پاس تھا جی کو چین کچھ تھا
تیرا جانا کہ آفت آئی

نظروں سے چھپا جو تیرا چہرا
میرے سر پر قیامت آئی

باقی تھوڑا سا دن تھا لیکن
میری آنکھوں میں تھا اندھیرا

کیونکر ہو صبر مجھ سے ممکن
دل کو ہر دم ہے دھیان تیرا

اے ظلم کے اور ستم کے بانی
اے شوخ جفا شعار عیار

مجھ کو دوبھر ہے زندگانی
میری آنکھوں میں ہے جہاں تار

اے برق مثال اے طرحدار
اے ماہ جبیں غزال سیرت

مجھ پر تار نفس ہے اک بار
مجھ سے کوسوں پرے ہے راحت

گھر بھر سوتا ہے ایک بیتاب
آہیں بھر کر تڑپ رہا ہے

بھولے بھی آنکھ کو نہیں خواب
ظلمت شب کی عجب بلا ہے

ہرگز ہرگز مجھے میسر
آئی کوئی گھڑی نہ راحت

کیسا کیسا رہا ہوں مضطر
کتنی کتنی اٹھائی زحمت

دل کو ہے سخت بے قراری
جینے کے پڑ گئے ہیں لالے

دل کی حالت نہ یہ مٹے گی
جب تک تو ہی نہ پھر سنبھالے

مجھ کو تنہائی گو ستائے
تجھ کو عیش و طرب ہو میموں

مجھ پر آفت ہزار آئے
تجھ سے خوش طالعی ہو مقروں

تجھ سے چھٹنا ہے سخت مشکل
جب تک ہے حافظے میں قدرت

تیرا تیرا رہے گا یہ دل
جب تک نہ ملائے تجھ سے قسمت