EN हिंदी
ہجر و وصال | شیح شیری
hijr o visal

نظم

ہجر و وصال

شورش کاشمیری

;

خود اپنے دل کا خون فضا میں اچھال کے
مضموں لکھے ہیں ہم نے فراق و وصال کے

کچھ سانحوں کی یاد ہے عنوان روز و شب
کچھ حادثے ہیں نوک زباں ماہ و سال کے

اک ناتمام درد شریک چمن رہا
شاخوں پہ کونپلوں کی نقابیں اجال کے

صحن حرم سے انجمن مے فروش تک
دو گام فاصلہ ہے ذرا دیکھ بھال کے

پچھتا رہے ہیں نغمہ سرایان فصل گل
بزم چمن سے سرو و سمن کو نکال کے

ہم نے کیا ہے گردش دوراں کو پائمال
ہم نے سہے ہیں زخم زمانے کی چال کے

شورشؔ زمانہ ہم سے موافق نہ ہو سکا
ہم لوگ ہیں چمن میں پرانے خیال کے