EN हिंदी
ہجر کی راتیں | شیح شیری
hijr ki raaten

نظم

ہجر کی راتیں

میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

;

ہجر کی راتیں کالی کالی
اس پر یاد کسی کی جاری

ایسے گہرے سناٹے میں
کس سے کہیں ہم غم کی کہانی

دنیا ساری سوتی ہے
تارے گننا بے چینی میں

آہیں بھرنا بیتابی میں
آہ ہماری سونے والو

اس حالت میں لاچاری میں
رات بسر یوں ہوتی ہے

کشتۂ غم کی اب تربت پر
حسرت روتی ہے حسرت پر

ایک اداسی کا عالم ہے
سونے والے کی قسمت پر

شمع بالیں روتی ہے
جس میں حسرت کی بستی ہے

جس کی بلندی ہر پستی ہے
یعنی جس کو دل کہتے ہیں

جس پر سب دنیا ہنستی ہے
ایک انوکھا موتی ہے

چرخ نے بیدردی بے رحمی
سچ تو یہی ہے اس سے سیکھی

آؤ عالمؔ کچھ تو بتاؤ
سب کچھ ہے پر یاس کسی کی

یاد بھلا کیوں کھوتی ہے