بہت دن سے
کئی ان دیکھے الزامات کے باعث
ہوا مطلوب ہے ہم کو
ہوا تاریک راتوں میں
ہمارے خواب لے جاتی ہے
اور واپس نہیں کرتی
ہمارے خط چراتی ہے
ہمارے دل کی باتیں
راہ گیروں کو سناتی ہے
ہمارے گیت
میدانوں گلی کوچوں میں گاتی ہے
ہم اپنے دل کے
زنگ آلود خانوں میں
محبت جوڑ کے رکھتے ہیں
لیکن شام ہوتے ہی
ہوا اک نرم جھونکے سے
یہ خانے کھول لیتی ہے
وہاں جو کچھ ہے لے جاتی ہے
اور ہم سے اجازت تک نہیں لیتی
محبت قرض ہے
یہ بات کہنے کی
ہمیں مہلت نہیں دیتی
ہمیں کاغذ پہ اپنا نام
اپنے ذمے واجب خواب
لکھنے کی سہولت تک نہیں دیتی
ہوا پر جرم کو ثابت ہوئے
مدت ہوئی شاید
ہوا مفرور ہے جب سے
ہوا آئی تو ہم اس کو
کسی اندھے کنویں میں بند کر دیں گے
یا اک تاریک تہہ خانے میں لے جا کر
سمندر سے زیادہ بے کراں
تنہائی کا پابند کر دیں گے
اگر ممکن ہوا تو ہم ہوا کو
خشک پتوں کی طرح سے
خاک کا پیوند کر دیں گے
نظم
ہوا
ذیشان ساحل