EN हिंदी
ہوا لوٹے تو پوچھیں | شیح شیری
hawa lauTe to puchhen

نظم

ہوا لوٹے تو پوچھیں

رفیق خاور جسکانی

;

روز و شب کا وقفہ کرب و مسرت
شام کہتے ہیں جسے

کیوں کر گزاریں
قرض سانسوں کا اتاریں یا رخ ہستی

نکھاریں
کون ہے دل کے سوا اس کرب راز پیکراں

میں اپنے ساتھ
اب کسے آواز دیں کس کو پکاریں

شام بھر کی فرصت غم یوں گزاریں
دھول میں اٹے ہوئے اک راستے پر ایک

گوشے کے خلا میں کائنات آباد ہے اک
چائے خانے کی جہاں دن ڈھلتے آئے دن

ہوائے شام میزوں کرسیوں کی دائرہ
در دائرہ شاخوں میں پھیلا اک شجر غم

کا اگا دیتی ہے
جس کے سائے میں بکھرے ہوئے پتوں کی صورت

سارے دن کی سنگ باری سے شکستہ
ریزہ ریزہ آئینے بکھرے ہوئے ملتے ہیں

جن کے سارے زخمی عکس اپنی روح کے
اپنی انا کے آرزؤں خواہشوں

محرومیوں اور حسرتوں کے اجڑے عالم ہیں
وہی ہے رہ گزر پتھریلی سانسوں کی وہی

بپتا وہی ہم ہیں
وہی ہے زندگی

اس تند خو بیزار بوڑھے کی طرح
جو اپنے ماتھے پر شکن ڈالے خفا بیٹھا ہے سب سے

اور سب میں
چائے کے کڑوے کسیلے گھونٹ پیالوں میں انڈیلے

بانٹتا ہے
اور ہر پیالے میں اس کے ماتھے کی تازہ شکن کا عکس ہے

یہ زندگی
ہر شام اس بوڑھے کی مانند اپنا میلا عکس دہراتی ہے

اور یہ زندگی
اک تیز پا مغرور موٹر کار کی صورت خس و خاشاک

کے بادل اڑاتی اور ہمارے چشم و سر میں جھونکتی ہے
ہم چلے آتے ہیں پھر بھی شام کے اس دست میں جس کے

مسافر ہر طرح کے لوگ ہیں
کچھ لوگ جو اک چائے کی پیالی سے آنے والے دن کی

کامرانی کا
منور عکس لے جاتے ہیں جن کی گفتگو ہی بیش و کم کے فکر سے

آگے نہیں بڑھتی