ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو
ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں
نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
نہ خواب میں انتظار کوئی
اب ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی
نہ شام صد اعتبار کوئی
نہ ان کی اپنی زمین کوئی نہ آسماں پر کوئی ستارہ
نہ کوئی موسم نہ کوئی خوشبو کا استعارہ
نہ روشنی کی لکیر کوئی، نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
جو ان کے دکھ پر کتاب لکھے
مسافرت کا عذاب لکھے
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو!
نظم
ہوا کو آوارہ کہنے والو
نوشی گیلانی